Khayrpur خیر پور

تاریخ خیر پور

File:Liaqat-ali2.jpg
پاکستان کے پہلے وزیر آعظم شہید  خان لیاقت علی خان
  ریاست
خیر پور کے دورے پر خیر پور کے
عمائدین کے ہمراہ
تحریک پاکستان جدوجہد میں خیر پور کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔پیر سید احمد شاہ سجادہ نشین درگاہ دانی پور شریف۔الٰہی بخش خمیسانی ایڈوکیٹ،محمد حسین شاہ رضوی،تی بخش عباسی،الٰہی بخش بھانبھن،آخوند فضل اﷲ،
File:Khayrpur Map.gif
پاکستان کے نقشے میں
سابقہ ریاست خیر پور 
الٰہی بخش پھلپو ٹہ،صاجزادہ میر علی مردان خان تالپور،صاجزادہ میرعطاحسین تالپور،بابو شاہ محمد،علی ڈینو شاہ،علی محمد مری،شیخ بہاؤالدین،حاجی یار محمد،پیر محمد شاہ آف گمبٹ،اﷲ ڈینو محمد سیال،فیض محمد عباسی،غلام قادر پہنور،حسن علی شاہ،پیر عبدالقادر شاہ جیلانی، حاجی غلام قادر منگی،ایم اے سیال،اﷲ بخش عباسی ایڈوکیٹ،مولانا شبیہ الحسین محمدی،سید علی عباس نقوی ایڈوکیٹ،سید افتخار حسین ایڈوکیٹ،مولوی رفیع عالم،سید علی طاہر جعفری ایڈوکیٹ،سید امیر عباس زیدی،یکیتا امروہوی،میجر علی عباس،نواب اصغر عباس زیدی،نواب سید قیصر زیدی،سید زیشان حیدر نواب امروہوی،چوہدری ساجد حسین،سید قیصر حسین زیدی ایڈوکیٹ،مرشد شاہین گورایہ،غلام حسن مخدومی،چاچا عبدالعزیز وغیرہ وغیرہ اور دوسرے کئی ایسے نام لئے جاسکتے ہیں جنہوں نے پاکستان بنانے کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ان میں سے اکثر لوگ اب زندہ نہیں ہیں۔لیکن ان کے بیٹے اور خاندان کے دوسرے افراد اپنے بڑوں کی قربانی کو یاد کر کے فخر محسوس کر رہے ہیں۔تاہم پاکستان بنانے والوں میں مرشد شاہین گورایہ،غلام حسن مخدومی،اﷲ بخش عباسی ایڈوکیٹ جیسے عمر رسیدہ بزرگ بھی موجود ہیں۔جو تحریک پاکستان کی جدوجہد کی بات چیت کرتے ہیں تو خوشی میں ان کی عمر کے دن بڑھ جاتے ہیں۔
1947
ء میں موجودہ خیر پور کو ریاست کا درجہ حاصل تھااس وقت خیر پور ریاست کی آبادی تقریباً4لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔خیرپور شہر میں صرف ایک ہائی اسکول موجود تھاجواب نازپائلٹ سیکنڈری ہائی اسکول کے نام سے مشہور ہے۔
1948ء میں مراد ہائی اسکول گمبٹ اور فیض ہائی اسکول کوٹ ڈی جی میں قائم ہوئے۔
1947ء سے قبل گمبٹ میں ہندوؤں کے دو پرائیویٹ اسکول قائم تھے جن کا الحاق پنجاب یونیورسٹی کے ساتھ تھا۔
1947ء میں خیرپور میں روزگار کے موقع محدود تھے لیکن پھر بھی لوگ خوشحالی کی زندگی گزارتے تھے۔1947ء سے 1954 تک خیر پور میں  معتددکارخانے قائم ہوئے۔جن میں خیرپور ٹیکسٹائل مل،خیرپورجینگ فیکٹری،داداجینگ فیکٹری،گورنمنٹ بلینکٹ فیکٹری، لقمان سلک فیکٹری(ریشمی کپڑا)،بنارسی ویورس کالونی،کالٹکس انڈسٹریز ، نور ہوزری،میرنٹنگ ورکس،داؤد آئل مل،خیرپوربناسپتی مل، خیرپور آئس فیکٹری،کٹوداآئس فیکٹری،حا چھی آئس فیکٹری،ورجینا تمباکو ری ڈرائینگ فیکٹری،گورنمنٹ فیض پریس،مراد برقی پریس،خیرپور ماچس فیکٹری، اعجاز ٹینری،یاسمین بوٹ فیکٹری،دامت کیفنکیشنری،ٹالپور شوگر ملز،دوہزار ہینڈ لوم،ساٹھ فلور مل،چالیس دائس مل،ہڈی کا کارخانہ،آدامل،گتّا فیکٹری،سرکہ فیکٹری،کھجور فیکٹری،ملتانی مٹی،قالین سازی،عمارتی چونا بنا نے کا کارخانہ وغیرہ وغیرہ۔
 ون یونٹ قائم ہونے سے قبل خیرپور میں ہائی کورٹ اور جوڈیشنل کمیٹی کی سہولتیں موجود تھیں۔وکلاء کی تعداد بھی موجود تھی۔
1950ء خیرپورلیجیسٹیواسمبلی قائم ہوئی جن کے 15رکن تھے،پہلی اسمبلی میں جو ارکان منتخب ہوئے ان میں اﷲ ڈینو سیال،آخوندامام بخش قریشی،غلام قادر پہنور،اﷲ بخش عباسی ایڈوکیٹ، صاحب زادہ،میر علی مردان خان تالپور،حاجی عطامحمد لنڈ،وڈیرہ سوبہادر خان بانبھن،علی محمد مری،سید ڈنو شاہ،حاجی غلام مرتضیٰ ،جان محمد سندھی،پیر محمد شاہ آف دانی پور،علی کتوہ فقیر،فیض محمد مر جائی اورقاضی غلام عباس شامل تھے۔
1950ء میں اسمبلی کا افتتاح اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے کیا۔پہلی اسمبلی میں خیرپور کے تالپور خاندان کیلئے ایک مخصوص نشست رکھی گئی تھی۔یہ اس لئے رکھا گیا تھا کہ خیرپور کے تالپور حضرات اپنے اثرورسوخ کا فائدہ حاصل کر کے تمام نشستوں پر اپنے خاندان کے افراد کو منتخب نہ کرائیں۔
1954ء میں خیرپور کی لجیسٹیو اسمبلی میں نشستوں کی تعداد بڑھا کر 30کی گئی جس میں سندھ کے مشہور شاعر عطا محمد حاجی بھی منتخب ہو کر اسمبلی میں پہنچ گئے۔
 دوسری جنگ عظیم جو1938ء سے 1945ء تک جاری رہی میں مہنگائی زور پکڑ گئی اور خوراک کی کمی ہوگئی لیکن ریاست خیرپور جس کا انتظام اس وقت خان بہادر اعجاز علی چلا رہے تھے۔انہوں نے خیرپور ریاست میں مہنگائی نہیں ہونے دی۔جس کی ایک مثال یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران سکھّر میں جب گندم 12روپے فی من تھی تو خیرپور ریاست میں گندم 6روپے فی من مل رہی تھی۔
 پیر جو گوٹھ،پریالو،کوٹ میر حمداور داہوجا وغیرہ جو اب خیرپور ضلع میں شامل ہیں وہ اس وقت سکھّر میں شامل تھے۔
1954ء میں خان بہادر مرزا ممتاز قز لیا شن جن کا تعلق مشہور قزلباش گھرانے سے تھا خیرپور ریاست کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تو انہوں نے پہلی بار ریاست کے لوگوں کو 50فیصد ڈھل معاف کرنے کا اعلان کیا۔ جس کے بہت ہی اچھے اثرات رونما ہوئے
انہوں نے خیرپور میں ممتاز کالج قائم کیا۔اور سول اسپتال بھی انہوں نے ہی قائم کیا۔
1958ء میں جنرل محمد ایوب خان نے ملک میں مارشل لاء نافز کیا اور خیرپور ریاست کو ختم کردیااور اسے ڈویزنل ہیڈ کوارٹر کا درجہ دیدیا۔
 خیرپور ڈویژن سکھّر،نواب شاہ،لاڑکانہ اور جیکب آباد تک کے علاقے شامل تھے۔ایوب خان کے بعد مختصر عرصہ جنرل یحییٰ خان حکومت میں رہے۔اس کے بعد زوالفقار علی بھٹو اقتدار میں آئے تو 1974ء میں انہوں نے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کو خیرپور سے سکھّر منتقل کردیا۔خیرپور کے عوام نے ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سکھّر منتقل کرنے کے خلاف دوماہ تک مسلسل احتجاج کیا۔جلوس نکالے مظاہرے کیئے اور بھوک ہڑتالیں کیں۔جن پرزولفقار علی بھٹو نے ڈویژنل ہیڈکوارٹر تو سکھّر سے واپس خیرپور منتقل نہیں کیا لیکن اس کے عوض خیرپور میں شاہ عبدالطیف یونیورسٹی اور ریڈیو اسٹیشن قائم کر نے کا اعلان کیا۔
1947ء میں خیرپور شہر میں ایک چھوٹی ڈسپنسری تھی لیکن اب خیرپور ضلع میں اسپتال قائم کئے جا چکے ہیں۔اور ضلع بھر میں دو سو سے زائد اسپتال قائم ہیں۔
1947ء میں خیرپور میں ایک ناز ہائی اسکول تھا لیکن اب سو سے زائد ہائی اسکول موجود ہیں۔ضلع میں ایک کالج نہیں تھا،جبکہ تین گرلز کالجوں سمیت ضلع بھر میں تقریباً20کالج قائم ہیں،اور یونیورسٹی شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے نام سے موجود ہے۔
1947ء میں خیرپور میں تقریباً 10سے زائد کارخانے تھے لیکن افسوس کے اب خیر پور شہر میں ایک بھی کارخانہ نہیں ہے اور اب خیرپور شہر کو صنعتی لحاظ سے یتیم شہر کے نام سے پکاراجاتا ہے۔
 ممتاز بزرگ صحافی اور تحریک پاکستان کے بزرگ رہنما مرشد شاہین گورایہ نے بتایا کہ 1947ء سے 1970ء تک خیرپور میں تقریباً50کارخانے قائم تھے۔ان کارخانوں میں 25ہزار سے زائد مزدور کام کرتے تھے۔لیکن افسوس پیپلز پارٹی کو عوامی دورِحکومت کی سیاست کی وجہ سے اب خیرپور صنعتی اعتبار سے یتیم ہوگیاجن کی وجہ سے ہزاروں خاندان بیروز گار ہوگئے۔انہوں نے بتایا کہ 1947ء میں گندم 5روپے من ملتی تھی لیکن اب گندم 400روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔گندم کے اعلاوہ دوسری اشیاء کیں قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
1947ء میں خیرپور کی آبادی تقریباً 4لاکھ افراد پر مشتمل تھی جو اب تقریباً 22لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
 خیرپور کے مشہور سیاستدانوں میں سندھ کے موجودہ وزیر اعلیِ سید قائم علی شاہ  ہیں جو سندھ کے دوسری بار وزیر اعلیِ منتخب ہوئے ہیں اور بڑی ہی کامیابی کے ساتھ سندھ کی حکومت کا نظام چلا رہے ہیں  اس کے علاوہ مرحوم  شاہ مردان شاہ پیر آف پگارا کا تعلق بھی خیرپور ہی سے تھا اب ان کے جانشین  سید صبغت اللہ شاہ راشدی دوئیم پیر آف پگارا ہیں

،پیر میراں محی الدین شاہ جیلانی آفندی آف دانی پور،سید غوث علی شاہ،سیدقائم علی شاہ،منظور حسن وسان،سید پرویز علی شاہ جیلانی،پیر سید عبدالقادر شاہ جیلانی،پیر گل شاہ جیلانی،اسد علی شاہ،پیر سید شفقت اﷲ شاہ راشدی،پیر مردان شاہ راشدی،ظفر اقبال بلال،سید قیصر حسین زیدی ایڈوکیٹ،سید چو ہدری ساجد حسن،صا جزادہ غلام علی تالپور،پیر عبدالرزاق شاہ جیلانی،بشیر خان بانھبن،نعیم احمد کول،محرم شیخ آف گمبٹ،غلام علی شیر حیدری،سردار امتیاز حسین پھلپوٹہ،مولانا غلام محمد پھنور،مولانا میر محمد میرک،سید سرکار حسین شاہ،میجر علی عباسی،مولانا اسد علی شیر،پیر فضل علی شاہ جیلانی،اﷲ درایوسی ایڈوکیٹ،شفقت مہیر ایڈوکیٹ،ایوب شر،کامرئید ثنا ؤاﷲ شیخ،لعل بخش فضل،قماز علی رڈ اور اہم شامل ہیں مشہور پیر سید سچل شاہ جیلانی،سید علی اسلم جعفری ایڈوکیٹ،سیدمہیر حسن ایڈوکیٹ،افند دام ایڈوکیٹ،مجاہد حسین ایڈوکیٹ،آل مقبول اخوند ایڈوکیٹ،سید ناصر حسین کانجی ایڈوکیٹ،سید مشتاق حسین شاہ ایڈوکیٹ،شفیع محمد چانڈیو ایڈوکیٹ،نظر محمد گاہو ایڈوکیٹ،اﷲ بخش عباسی ایڈوکیٹ کے نام قابلِ زکر ہیں۔